Post of 12-Sep-2020

Testing post…

فاٹا میں نئے دور کا تاریخی آغاز افضال ریحان

فاٹا میں نئے دور کا تاریخی آغاز افضال ریحان
آج سے بیس برس قبل جب ابھی نائن الیون نہیں ہو ا تھا لیکن دہشت گردی کاا مڈتا طوفان ملاحظہ کرتے ہوئے ہم نے یہ استدلال تحریر کیاکہ فاٹا کو جلد از جلد فرنیٹر میں ضم کر دیا جائے یہ کوئی غیر معمولی دانشمندی نہ تھی۔ فاٹا کے اندرونی حالات سے باخبر کوئی بھی شخص اسی نتیجہ پر پہنچ سکتا تھا بلکہ یہ فیصلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہو جا نا چاہیے تھا مگر ہمیں بتایا گیا کہ ریاست پاکستان انگریز دور کے کسی معاہدے کی پابند ہے کہ وہ ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی حالانکہ یہ ایک بودی دلیل تھی بالخصو ص جب ہمارا پہلا آئین بنا تھا تو اس کی عملداری بلا تمیز و تحصیص تمام اہل وطن اور خطوں پر مساویانہ و منصفانہ اسلوب میں ہونی چاہیے تھی جبکہ یہاں حالت یہ رہی کہ قتل جیسی گھناؤنی واردات ہو جاتی تو کہا جاتا کہ مبینہ قاتل مفرور ہو کر علاقہ غیر میں جا چکا ہے حتیٰ کہ کوئی گاڑی بھی چوری ہو جاتی تو پولیس کی طرف سے یہ کہانی سنائی جاتی کہ آپ کی گاڑی تو فاٹا پہنچ چکی ہے وہاں تو ہمارا کوئی اثر رسوخ نہیں ہے۔ ایسی فضا میں اگر یہ بد نصیب خطہ دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن گیا تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیے۔
آج برطانوی اخبار ’’ ڈیلی میل‘‘ یہ لکھ رہا ہے کہ ’’شمالی وزیرستان کا علاقہ ایک عشرے سے زائد تک عالمی دہشت گردی کا اہم مرکز رہا ہے۔ افغان سرحد پر اس پہاڑی علاقے کی محفوظ بیس سے طالبان اور القاعدہ جنگجووں نے دنیا بھر میں حملے کیے ہیں جن میں زیادہ تر حملوں کا نشانہ امریکی برطانوی رہے۔2005 ء کے لندن بم دھماکے جن میں 52 افراد ہلاک ہو گئے تھے ان کا ماسٹر مائنڈ القاعدہ کا معروف دہشت گرد ارشد رؤف بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتا تھا اور اس وقت وہ دنیا کا سب سے زیادہ مطلوب شخص تھا۔‘‘ ’’نائن الیون کے بعد جب امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے دہشت گردوں کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے افغانستان پر یلٖغار کی تو ان کے تعاقب سے بچنے کے لیے بن لادن سمیت طالبان اور القاعدہ فورسز نے فرار ہو کر پاکستان کے انہی قبائلی علاقوں میں پناہ لی وہ مقامی قبائل جن میں زیادہ تر کے افغانستان میں مضبوط روابط تھے ان قبائل کے پاس انہیں تحفظ ملا طالبان نے وزیر ستان کو افغانستان میں امریکی فورسز اور اتحادیوں پر حملوں کے لیے استعمال کیا۔‘‘اور آج تک امریکی طالبان کے حقانی گروپ کا رونا رو رہے ہیں۔
ہمیں یاد ہے کہ شہید وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی یہ تمنا تھی جس کا وہ بارہا اظہار بھی کرتی رہیں کہ فاٹا کو قومی دھارے میں لا یا جائے گا۔ لیکن یہ سعادت شاید قدرت نے وزیراعظم نواز شریف کے نام لکھی تھی جنہوں نے 2015 میں بزرگ سیاستدان سر تاج عزیز کی قیادت میں فاٹا اصلاحات کمیٹی تشکیل دی اس کمیٹی نے خطے کا دورہ کرتے ہوئے قبائل عمائدین، سرکاری و غیر سر کاری ذمہ داران سے میٹنگز کیں اور اب کابینہ میں اپنی 24 نکاتی سفارشات پیش کیں جنہیں وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں منظور کرتے ہوئے یہ تاریخی فیصلہ سامنے آیا کہ فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کر دیا جائے گا یوں تعمیر و ترقی کا ایک قابلِ اطمینان پیکج دیا جا رہا ہے اور سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ 2018 کے انتخابات میں ون پرسن ون ووٹ کا اصول اپناتے ہوئے قبائل کے عوام کو براہِ راست حق نیابت دیا جا رہا ہے کہ وہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے لیے اپنے نمائندے آبادی کی بنیاد پر خود منتخب کر سکیں گے سینٹ میں بھی آئینی طریقِ کار کے مطابق انہیں نمائندگی حاصل ہو گی جو ظاہر ہے کہ کے پی سے منسلک ہو گی۔
یہاں ہم مولانا فضل الرحمن کے اختلافی نقطہ نظر یا تحفظات پر یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ کسی نوع کے ’’ریفر نڈم‘‘،’’ضم کرنے‘‘ یا’’ قومی دھارے میں لانے ‘‘ کی بحث غیر ضروری تھی جس کی توقع کم از کم مولانا جیسے عملیت پسند منجھے ہوئے سیاستدان سے نہیں کی جا سکتی تھی ۔ فاٹا میں مولانا کی جمعیت العلماء کے اثر و رسوخ سے ہمیں انکار نہیں ہے لیکن اگر مسلہ کریڈٹ کا ہے تو وہ انہی کا ہے کیونکہ وہ اس وقت حکومتِ پاکستان کے اتحادی کی حیثیت سے کابینہ میں بھی نمائندگی رکھتے ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ اگلے روز انہوں نے وزیراعظم پر اپنے تمام اعتراضات واپس لیتے ہوئے شمالی وزیر ستان میں کرم ٹنگی ڈیم پراجیکٹ کی افتتاحی تقریب میں نہ صرف شرکت کی بلکہ دعا بھی فرمائی۔
کرم ٹنگی ڈیم پراجیکٹ خطے کی ترقی میں جوہری حیثیت کا حامل منصوبہ ہے جو امریکی تعاون و معاونت سے مکمل کیا جا رہا ہے امریکی حکومت نے US ایڈ پروگرام کے تحت اس پراجیکٹ کی پہلی فیز کے لیے 81 ملین ڈالر کی رقم فراہم کی ہے اس پر کل 23ارب روپے لاگت آئے گی ۔ اس موقع پر امریکی سفیر نے کہا کہ کرم ٹنگی ڈیم پراجیکٹ توانائی کے شعبے میں پاکستان کی اعانت اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کے عزم کا عکاس ہے اس سے خطے میں نہ صرف زرعی ترقی ہوگی بلکہ سستی بجلی بھی پیدا کی جا سکے گی۔ یہاں ایک بحث کی جارہی ہے کہ فاٹا کو KP میں ضم کرنے کی نسبت کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ اسے ایک علیحدہ صوبے کی حیثیت دے دی جاتی ہماری نظر میں یہ سوچ درست نہیں ہے جیسے کہ کمیٹی کے چئیرمین جناب سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ہمارے سامنے چار پہلو تھے ایک یہ کہ جیسا یہ ہے ویسے ہی رہنے دیاجائے دوسرے گلگت بلتستان کے پیٹرن پر ایک کونسل تشکیل دے دی جائے تیسرے یہ کہ اسے ایک علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے اور چوتھے یہ کہ اسے KP میں ضم کر دیا جائے ۔
277 ہزار دو سو بیس کلومیٹر پر محیط یہ خطہ سات قبائلی ایجنسیوں باجوڑ ، مہمند، خیبر، کرم اور کزئی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان پر مشتمل ہے جہاں درجن بھر مختلف پشتون قبائل آباد ہیں جن کی ثقافت ہی نہیں سماجی و علاقائی حیثیت بھی کے پی والوں سے جڑی ہوئی ہے جیسے جنوبی وزیرستان ٹانک اور ڈیرہ اسمعیل خاں سے اور شمالی وزیرستان بنوں وغیرہ سے، سچ تو یہ ہے کہ فاٹا سیکرٹریٹ کو پشاور میں بیٹھے لوگ ہی چلا رہے تھے ہمیں خود بھی فاٹا کے کچھ علاقے وزٹ کرنے کا موقع ملا تو یہی واضح ہوا کہ اسے KPK کا با ضابطہ سیاسی و قانونی حصہ ہونا چاہیے۔ یوں KPK کا حجم بڑھنے سے اُس کی اہمیت دوسرے صوبوں کے درمیان موجود کمی کو بہتر توازن میں لے آئے گی بلکہ ہم تو یہ نقطہ نظر رکھتے ہیں کہ آزاد کشمیر کو گلگت بلتستان سے اسی طرح ملاتے ہوئے ایک پانچواں صوبہ بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے ۔
ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ فاٹا کے عوام نے گذشتہ ربع صدی دہشت گردی میں بلکہ 700 سالوں پر محیط سیاسی و انسانی حقوق سے محرومی میں سوائے جہالت اور پسماندگی کے کچھ حاصل نہیں کیا۔ ہمارافاٹا کا لاہور میں زیر تعلیم دوست بتا رہا تھا کہ اگر میں بھول کر جینز پہنے اپنے گاؤں چلا جاؤں تو سارا گاؤں حیرت سے دیکھتے ہوئے مجھے کسی دشمن قوم کا فرد خیال کرے گا ۔ بلاشبہ ان خود دار پختونوں کی درجنوں محرومیاں ہیں حالانکہ وہ وطنِ عزیز میں مساوی حیثیت کے شہری ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ دہشت گردی سے چھٹکارا پانے کے بعد پانچ سالہ عرصے میں خطے کی تقدیر بدلے گی یہاں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی عملداری ہی نہیں ہو گی بلکہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے دفاتر کھلیں گے یوں سیاسی سر گرمیوں کے ساتھ بلدیاتی اداروں کا نیٹ ورک قائم ہو گا ان کے لیے جدید تعلیمی ادارے بنیں گے سٹرکیں اور تفریحی پارک بنیں گے ہسپتال ، ڈسپنسریاں ، لائبریریاں سب کچھ آئے گا وزیراعظم نواز شریف کے الفاظ میں خوف اور فساد کا دور اپنے اختتام کو پہنچا ہے آج ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے جو تعمیر و ترقی اور مسرت و خوشحالی کا دور ہے۔

پاکستان عالمی تنہائی سے نکل رہا ہے ؟ افضال ریحان

پاکستان عالمی تنہائی سے نکل رہا ہے ؟ افضال ریحان
وطنِ عزیز میں ایک شکایت زبان زد عام ہے کہ یہاں مقاماتِ آہ و فغاں جتنے زیادہ ہیں تفریحات اور خوشیوں کے مواقع اتنے ہی کم ہیں اسی لیے جب کبھی پی ایس ایل فائنل کے لاہور میں انعقاد جیسا فیصلہ ہوتا ہے یا ویلنٹائن ڈے اور بسنت بہار منانے جیسے خوش کن مواقع میسر آتے ہیں تو ہم ان کی حمایت اپنا قومی فریضہ خیال کرتے ہیں اس سال ویلنٹائن ڈے سے ایک روز قبل لاہور میں خود کش حملے نے پوری فضا کو سوگوار بنا دیا رہتی کسر سیہون شریف میں حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کے مزار پر ہونے والے خود کش حملے نے پوری کردی۔ پھر چار سدہ میں بھی یہی خونی کھیل کھیلا گیا یوں چاروں صوبوں میں دہشت گردوں نے سوز، خوف، دہشت اور وحشت کی فضا طاری کر دی۔ انسانی خوشیوں کے یہ قاتل پاکستانی عوام کو ہنستا کھیلتا دیکھنا قطعاََ پسند نہیں کرتے۔
بھلا ہو ہمارے بلند حوصلہ اور پُر عزم وزیراعظم کا جنہوں نے قوم کو ایک نیا اعتماد دیتے ہوئے نہ صرف اپنے تعمیرو ترقی کے سفر کو جاری و سار ی رکھا بلکہ تمام تر منفی پروپیگنڈہ کے بالمقابل سچائی ، حقائق شناسی ، محبت اور انسان نوازی کے پیغام کو بلند کیا سی پیک کے حوالے سے ہمارے میڈیا میں ایک غیر ذمہ دارانہ تاثر پھیلایا جا رہا تھا کہ جیسے امریکا اور مغربی ممالک اس کے مخالف ہیں حالانکہ عالمی سیاست کی رموز سے آگاہ کوئی بھی شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ آج کی دنیا ماضی کی بہت سی تنگناؤں سے کہیں آگے نکل چکی ہے مگر جو لوگ اپنے گاؤں یا گلی محلے کی سیاست سے آگے جھانکنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں وہی ایسے منفی پروپیگنڈوں میں پیش پیش رہتے ہیں بلاشبہ متعصب افراد پیدا کرنے میں کوئی قوم بانجھ نہیں ہے لیکن مہذب اقوام کے اجتماعی رویے بہرحال ایسے منفی نہیں ہوتے جیسے بیمار ذہنیتوں کے لوگ پیش کرتے ہیں
ہمیں خوشی ہے کہ انقرہ سے واپسی کا راستہ لینے سے پہلے وزیراعظم نے میڈیا کے سامنے کھل کر یہ واضح کیا کہ امریکا اور مغربی ممالک سی پیک منصوبے کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی اس کے خلاف کسی نوع کی کوئی سازش کی جارہی ہے بلکہ کچھ مغربی طاقتوں نے اقتصادی راہداری کے اس منصوبے کا حصہ بننے میں دلچسپی ظاہر کی ہے وزیراعظم نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ ترکی وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ مل کر اقتصادی راہ داری منصوبے کو تقویت دے سکتا ہے ہمارا وژن خنجراب سے چین کر غزستان اور قازقستان تک بلکہ سنٹرل ایشیاء کے تمام ممالک تک اقتصادی روابط قائم کرنے پر مرکوز ہے۔اسلام آباد میں منعقدہ اقتصادی تعاون تنظیم (ECO)کی حالیہ سمٹ کانفرنس کی افادیت کو اس پسِ منظر میں دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے جس کے ذریعے سنٹرل ایشیاء کے جنوب سے لے کر یورپ تک راہداریاں بن رہی ہیں اقتصادی ترقی کے لیے ای او سی وژن 2025 کی منظوری دی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ ECO ممالک سلک روڈ ورثہ کے کسٹوڈین ہیں ۔ سمٹ کا موضوع ہی ’’علاقائی ترقی کے لیے رابطوں کا فروغ ہے‘‘ ۔ وزیراعظم نواز شریف کا یہ اظہارِ خیال قابل فہم ہونا چاہیے کہ ECOکا وژن2025 ہمارے آگے بڑھنے کے لیے حقیقت پسندانہ اور ٹھوس تنظیمی اہداف کی شکل میں بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ تجارتی روابط میں اضافہ اور اقتصادی تعاون میں فروغ ہمارے خطے کو ترقی ، خوشحالی اور امن کا مرکز بنادے گا۔
پچھلے برس سارک سمٹ کی ناکامی افسوسناک تھی وجوہ جو بھی تھیں اقتصادی نقصان خطے میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کا ہوا۔ اب ECO سمٹ میں افغانستان کے اعلیٰ سطحی و فد کی عدم شرکت بھی کوئی اچھی مثال نہیں ہے پاکستان اور ECO کے دیگر ممالک کے درمیان افغانستان کی جغرافیائی اہمیت نظرانداز نہیں کی جا سکتی حالانکہ وزیراعظم نواز شریف یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم خطے کی ترقی کے لیے بھارت اور افغانستان کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں ہم ان کے خیرخواہ ہیں بد خواہ نہیں پشاور سے جلال آباد تک چار لین کی موٹروے کا 70 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اسی طرح پشاور سے کابل تک موٹروے فزیبلٹی ورک جاری ہے ان انفراسٹرکچر پروجیکٹس کی فنڈنگ کھلے بندوں کی جارہی ہے خطے کے لیے جن کی افادیت مسلمہ ہے ۔ امید کی جا سکتی ہے کہ فیوچر قریب میں نہ صرف یہ کہ جنوبی ایشیاء کی ترقی و خوشحالی کے لیے سارک رکن ممالک وقت کی آواز کو سمجھتے ہوئے باہمی سیاسی اختلافات کے باوجود دستِ تعاون بڑھائیں گے بلکہ ECOممالک کے ساتھ زمینی روابط کا حصہ بنتے ہوئے خطے کی اقتصادی ترقی میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونگے ۔ افغان حکومت نے اگرچہ اپنا اعلیٰ سطحی و فد بھیجنے میں گرمجوشی نہیں دکھائی اس کی فوری وجوہ سے بھی انکار نہیں لیکن پاکستان میں اپنے سفارتی مشن کو یہ ہدایت کہ وہ سفارتی وفد کے ذریعے شرکت کرے بہت زیادہ مایوس کن نہیں ہے ۔ دہشت گردی کے حوالے سے شکایات صرف افغانستان اور بھارت کو نہیں ہیں پاکستان کوبھی ہیں یہ عفریت پورے خطے کا مشترکہ مسلہ ہے جسے کٹی کر کے نہیں باہمی تعاون سے ہی حل کیا جاسکتا ہے امید ہے کہ آنے والے دنوں یا مہینوں میں تینوں ممالک اس حوالے سے سفارتی سر گرمیوں کو بڑھاتے ہوئے کسی متفق علیہ نتیجہ پر پہنچنے میں کامیابی حاصل کر لیں گے جس نوع کی فہرستیں ہم اپنے افغان بھائیوں کو تھماتے ہیں یا ہندوستان ہمیں بھجواتا ہے ان کا حل قطع تعلقی یا جنگی فضا میں نہیں نکل سکتا۔ طورخم اور واہگہ بارڈر کھلنے چاہیں اقتصادی ، ثقافتی ، او ر سیاسی روابط بحال ہونے چاہیں ۔اسی سے ہمارا سفر پیچھے کی بجائے آگے کی طرف جا سکتا ہے۔
پاکستانی عوام کے لیے یہ خوش کن لمحہ ہے کہ عرصہ دراز کے بعد اسلام آباد میں ای سی او اقتصادی بلاک کے دس میں سے 9سربراہان مملکت و حکومت تشریف لائے ہیں اس میں جہاں دو طرفہ تعلقات اور اجتماعی مفادات کے منصوبے تشکیل پارہے ہیں وہیں دہشت گردی کے خاتمے کی خاطر مشترکہ کاوشوں کا عہدبھی کیا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ لاہور میں پی ایس ایل فائنل منعقد ہونے جا رہا ہے وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کے مشورے اور ہدایت پر یہ بڑا فیصلہ کیا ہے اس سے مایوسی پھیلانے والوں کو ضرور دھچکہ لگا ہے ۔ سابق کھلاڑی کا یہ بیان انتہائی افسوسناک ہے کہ لاہور میں فائنل کرانا پاگل پن ہے حالانکہ یہی صاحب تھوڑا عرصہ قبل اس کی حمایت میں بیان بازی کرتے پائے گئے تھے کیونکہ تب انہیں یقین نہیں تھا کہ حکومت کوئی ایسا بولڈ قدم اٹھائے گی وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ دہشت کے جبر سے حکومت جس طرح بسنت منانے کی خواہش سے دستبردار ہو گئی تھی اسی طرح فائنل بھی نہیں کروا سکے گی۔ ہماری کرکٹ کے سابق کھلاڑی کو اگر سیاست کا زیادہ تجربہ وغیرہ نہیں ہے تو بھی کسی لمحے مایوسی پھیلانے کی بجائے صبر اور خاموشی سے کام لے لیا کریں تو اس سے نہ صرف ان کی نیک نامی ہو گی بلکہ ان کی پارٹی کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔ ہم خطے کے تمام اندرونی و بیرونی مودی فکر حضرات کی خدمت میں گزارش کرتے ہیں کہ اگر آپ لوگوں میں خوشیاں نہیں بانٹ سکتے کم ازکم دکھ اور مایوسیاں بانٹنے سے احتراز کریں,اور اپنی اس سوچ کو بدل لیں کہ پاکستان ہمیشہ کے لیے عالمی تنہائی میں چلا جائے گا یا ناکام ریاست قرار پائے گا۔ الحمداللہ پاکستانی قوم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرتے ہوئے انتہا پسندانہ سوچ کو شکست دے گی اور تمام انسانی خوشیاں اس قوم کا مقدر ٹھہریں گی۔

Jane Austen Emma 1996

Jane Austen Emma 1996

 

Henry Kissinger – World Order.

Henry Kissinger – World Order. [ Audio Book ]

 

 

آپریشن ’’رد الفساد‘‘ اور وزیر اعظم کی سوچ؟ افضال ریحان

26-Feb-2017

آپریشن ’’رد الفساد‘‘ اور وزیر اعظم کی سوچ؟ افضال ریحان
دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ملک گیر آپریشن ’’ردالفساد‘‘ کا آغاز ہو چکا ہے جس میں بری ، بحری اور فضائی افواج کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے شامل ہونگے نہ صرف رینجرز کا پنجاب آپریشن اس کا حصہ ہو گا بلکہ پہلے سے جاری تمام آپریشنز بھی ’’ردالفساد‘‘ کا حصہ ہونگے جس کا مقصد نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرتے ہوئے دہشت گردی کا ہر سطح سے خاتمہ قرار دیا گیا ہے اور یہ بھی کہ اس حوالے سے اب تک جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں انہیں مستحکم بناتے ہوئے ملک کو دھماکہ خیز مواد اور بارود سے پاک کیا جائے گا ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق کور ہیڈ کواٹرز لاہور میں پنجاب کے کورکمانڈرز ، ڈی جی رینجرز اور سیکیورٹی اداروں کے سربراہان کا اعلیٰ سطحی اجلاس آرمی چیف کی صدارت میں منعقد ہوا اور دہشت گردی کے خلاف اس آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف نے ’’آپریشن ردالفساد‘‘ کا فیصلہ کہیں اور سے ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپریشن ’’ردالفساد‘‘ اور پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کا فیصلہ چند روز قبل وزیراعظم ہاؤس میں ہی ہوا ہے ۔ ملکی و غیر ملکی قوتیں پاکستان کی ترقی سے خوش نہیں ، ٹوٹی کمر والے اپنے جوہر دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ہم دہشت گردی کی بزدلانہ کاروائیوں سے ڈرنے اور گھبرانے والے نہیں عوام حوصلہ رکھیں ہم دہشت گردی کی جنگ جیتیں گے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ آپریشن ’’ردالفساد‘‘ کا اصولی فیصلہ اگرچہ وزیراعظم کی رہنمائی میں وزیراعظم ہاؤس کے اندر ہوا ہے لیکن ممکن ہے کہ اس کی کوئی ذیلی یا ضمنی تفصیل بعدازاں کو ر ہیڈ کوارٹرز لاہور میں واضح کی گئی ہو چونکہ وزیراعظم کو عین اس موقع پر پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق دورہ ترکی پر جانا تھا اس لیے اس کی تفصیلات بعد میں سامنے آئی ہیں البتہ آئیڈیل صورتحال یہ ہوتی کہ وزیراعظم نواز شریف قومی سلامتی سے متعلق اتنے اہم فیصلوں کے حوالے سے اعلان یا اظہار خیال براہ راست اپنے قوم سے خطاب میں کرتے چاہے دورہ ترکی میں ایک آدھ روز کا التوا کر لیا جاتا۔ وطنِ عزیز میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے غلط فہمیوں کی ایک تاریخ ہے گو آج الحمدللہ نہ صرف عسکری بلکہ سیاسی حوالوں سے بھی بالخصوص نیشنل ایکشن پلان پر عملداری اور فوجی عدالتوں میں توسیع کے تناظر میں دونوں ایک پیج پر ہیں جس کا اظہار وقتاََ فوقتاََ ہماری سیاسی قیادت کی طرف سے ہوتا رہتا ہے کتنا اچھا ہوکہ اگر موجودہ حالات کی رواروی میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی اس خوشگوار حقیقت کا برملا اظہار کہ ہم دونوں ایک پیج پرہیں، قوم کے سامنے اس طرح ہو جائے جس طرح سیاسی قیادت کرتی رہتی ہے۔
آج دہشت گردوں اور خود کش نظریہ کے معماروں نے ہمارے قومی شعور پر جو چوٹیں لگائی ہیں ہمارے جسد قومی کو جس طرح زخمی کیا ہے اس کا فطری تقاضا ہے کہ قومی قیادت بلاتمیز و تفریق نبیانِ مرصوص بن کر یک جان و یک جا ہو جائے۔ اگر تباہی و بربادی کے سوداگر اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود یکجا ہو سکتے ہیں یا ایسے دکھائی دیتے ہیں تو ہماری قومی قیادت جس کا مقصد وحید ہی ملک و قوم کی خدمت ہے اُ ن کے لیے تو اولیٰ ہے کہ وہ وحدت پر قائم ہی نہیں، وحدت و یگانگت کا مظہر دکھائی دیں۔ اگر کسی ایشو پر کوئی اختلاف اٹھتا بھی ہے تو رہنمائی کے لیے الحمدللہ ہمارے پاس ہمارا آئین موجود ہے جس میں تمام قومی اداروں کی رہنمائی کا شافی و کافی اہتمام ہے ۔ پارلیمنٹ چونکہ آئین کی ماں اور عوامی حاکمیت کی مظہر ہے اس لیے اس کی بالا دستی کے سامنے سب سر نگوں ہیں ۔
وزیراعظم کے حالیہ دورہ ترکی میں بھی اس سوچ کی باز گزشت سنائی دی ہے بالخصوص جب وہ ترک پارلیمنٹ میں تشریف لائے تو اجلاس روک کر اُن کا استقبال کیا گیا انہیں پارلیمنٹ کا وہ حصہ دکھایا گیا جہاں 15جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے وقت بمباری کی گئی تھی اور اب اس حصے کو میوزیم بنایا جا رہا ہے وزیراعظم اس حصے کا دیر تک معائنہ کرتے رہے انہوں نے 248شہدائے جمہوریت کو خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا کہ ترکی کے دشمن پاکستان کے دشمن ہیں اور دہشت گرد ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔ اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف کے احساسات کو سمجھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے جنہیں خود ایک ایسی ہی فوجی بغاوت کے نتیجے میں ہتھکڑیوں، جیلوں اور پھر برسوں پر محیط جلا وطنی کی صعوبتیں اٹھانی پڑی تھیں ۔
وزیراعظم کے دورہ انقرہ کی دوسری اہم بات یہ تھی کہ انہوں نے ترک قوم کے بانی مصطفے کمال اتاترک ؒ کے مزار پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑہائی یہاں انہیں گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا اور انہوں نے کمال اتاترک ؒ کی شخصیت کے متعلق وہاں رکھی گئی کتاب میں اپنے تاثرات بھی قلمبند کیے۔ کمال اتاترک ؒ کے مزار پر پہنچنے کے لیے وزیراعظم نواز شریف نے آدھا کلومیٹر پیدل سفر کیا اور کئی درجن اونچی سیڑیاں چڑہیں۔ کئی اختلافی آراء کے باوجود ترکی میں آج بھی کمال اتا ترک کی شخصیت و حیثیت ولولہ انگیز ہے بحیثیت مجموعی ترک قوم اُن سے آج بھی اسی طرح محبت و عقیدت رکھتی ہے جس طرح ہم اپنے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ؒ سے رکھتے ہیں۔
دورہ ترکی کے حوالے سے وزیراعظم کی تیسری اہم بات یہ تھی کہ انہوں نے تمامتر الزامات اور تنقیدی بیانات کے باوجود بے باکی کے ساتھ بھارت کے متعلق یہ کہا کہ’’ ہم نے الیکشن میں بھارت سے دوستی کے نام پر ووٹ لیا ہے اس کے خلاف سازش نہیں کر رہے ۔ ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات اور تجارت بڑھانا چاہتے ہیں بھارت کے خلاف کوئی بری خواہش تھی نہ ہے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عوام کا تین مرتبہ مینڈیٹ حاصل کرنے والے ہر دلعزیز وزیراعظم کے شایانِ شان یہی بلند فکری تھی اسی طرزِ عمل سے نفرتیں اور کدورتیں دور ہو سکتی ہیں ورنہ انتہا پسندی پھیلانے کے لیے موا قع ، جواز یا الفاظ کی کمی کسی کے پاس نہیں ہوتی ۔ہماری نظر میں انڈین وزیراعظم مودی کو نواز شریف سے تہذیب، شائستگی اور الفاظ کا بہتر چناؤ سیکھنا چاہیے اسی سے وہ بہتر سفارت کاری پیدا ہو سکتی ہے جس کی آج اس پر خطر خطے کو ضرورت ہے ۔
اس طرح اُن کی چوتھی اہم بات افغانستان کے حوالے سے تھی جسے وہ ہمیشہ اپنا برادر ہمسایہ ملک قرار دیتے ہوئے صدر اشرف غنی سے وابستہ توقعات کا اظہار کرتے رہتے ہیں یہاں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گرد ٹھکانے موجود ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ انہوں نے ترک صدر طیب اردوان سے درخواست کی کہ وہ افغانستان کے ساتھ جو خصوصی تعلق اور اثر رسوخ رکھتے ہیں اسے استعمال میں لاتے ہوئے وہ افغان صدر کو اپنی سرزمینِ پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں ۔ ترکی چونکہ نیٹو کے اہم ممبر کی حیثیت سے اپنی افواج کے ذریعے طالبان کی دہشت گردی کے خلاف لڑتا رہا ہے یوں کابل حکومت کو تحفظ فراہم کر تا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے اس لیے وزیراعظم کی اپنے برادر مسلم ملک کے حوالے سے یہ درخواست قابلِ فہم ہے ۔ دہشت گردی اس وقت کسی ملک یا مخصوص خطے کا مسلہ نہیں رہی ہے بلکہ سفارت کاری کی زبان میں عالمی مسلہ ہے جسے ذمہ دار اقوام کو باہمی تعاون سے حل کرنا چاہیے پاکستان جہاں عالمی سطح پر اس حوالے سے تعاون حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے وہیں اندرونِ ملک بھی آپریشن ’’ردالفساد‘‘ کے ذریعے اس سے چھٹکارے کے لیے جد وجہد کر رہا ہے ۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ضربِ عضب میں اگر کوئی کمیاں رہ گئی تھیں تو آپریشن ’’ردالفساد‘‘ میں ان کی بھی تلافی ہو سکے گی تمام کاروائیاں نیشنل ایکشن پلان کی روح کے مطابق حکمت و فراست کے ساتھ صرف قومی مفاد میں کی جائیں گی۔

نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اور رینجرز افضال ریحان

 نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اور رینجرز افضال ریحان

23-Feb-2017

وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ” دہشت گرد دھرتی کا ناسور ہیں، دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ پرستی پاکستانی عوام کا مقدر نہیں ہیں ہم قائد کے پاکستان میں کسی کو آگ اور خون کا کھیل نہیں کھیلنے دیں گے۔ معصوم زندگیوں سے کھیلنے والے عبرتناک انجام سے بچ نہیں پائیں گے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیاسی و عسکری قیادت ایک صفحے پر ہیں”۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے یہ باتیں صوبائی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں اُس وقت کہیں جب کمیٹی وزیر اعظم کی زیر ہدایت دہشت گردی کے خلاف پنجاب میں آپریشن کے حوالے سے یہ فیصلہ کر رہی تھی کہ اس میں رینجرز کی مدد بھی حاصل کی جائے اگرچہ اس کا طریقِ کار بعد میں طے کیا جائے گا۔
نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے سلسلے میں قائم کی گئی اعلیٰ سطحی صوبائی اپیکس کمیٹی میں مشیر قومی سلامتی ،کور کمانڈر لاہور، آئی جی پولیس،ڈی جی رینجرز اور دوسرے سول اور عسکری اعلیٰ افسران و ذمہ داران نے شرکت کی ۔اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت کیے جانے والے اقدامات پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا ۔ دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کی خاطر کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی ، سرحدی اضلاع کی کڑی نگرانی افغان مہاجرین کی غیر قانونی نقل و حرکت پر پابندی سمیت کئی اہم فیصلے کیے گئے چار گھنٹے پر محیط اجلاس میں محکمہ انسداد دہشت گردی اور سیف سٹی پراجیکٹ کی تعریف کی گئی اور آپریشن کا دائرہ کارمزید وسیع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
وطن عزیز میں ان دنوں کی جس طرح دہشت گردی کے سانحات لگاتار ہوئے ہیں بلاشبہ ان سے پوری قوم میں تشویش کی لہر دوڑگئی ہے۔فوری سوال یہ اٹھتا ہے کہ 16 دسمبر کے بدترین سانحۂ پشاور کے بعد آل پارٹیز نے سول و عسکری قیادت کے ساتھ مل کر جو نیشنل ایکشن پلان طے کیا تھا اس پر کماحقہْ عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے اس طرح سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ہم سمجھتے ھیں کہ سول ملٹری تعلقات جتنے اس وقت خوشگوار ھیں کم از کم ما قبل نہ تھے اور یہ خوش آئند بات ہے۔ خدا کرے کہ آنے والے برسوں میں تمام ریاستی و سیاسی ادارے وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے قومی اتفاق رائے کے ساتھ آگے بڑھیں۔سی پیک کے بعد ہمارا ملک ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے جس کا اولین تقاضا پورے ملک میں امن و سلامتی کا قیام ہے ورنہ بیرونی سرمایہ کاری کو ایک سو ایک خدشات لاحق ہو جائیں گے اگر ہم نے اقوامِ عالم کے دوش بدوش ترقی کے سفر میں آگے بڑھنا ہے تو پھر یہاں دہشت گردی و انتہا پسندی کیلئے زیرو ٹالرنس درکار ہے۔
آج الحمداللہ پوری قوم یکسو ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پرائی نہیں ہماری اپنی بقا کی جنگ ہے اگر ہم نے اپنی قوم اور اپنی آنے والی نسلوں کو بچانا ہے تو پھر ہمیں نہ صرف دہشت گردی کو ختم کرنا ہے بلکہ انتہا پسندی پر مبنی اس سوچ کابھی قلع قمع کرنا ہے جو دہشت گردی کو ایندھن فراہم کرتی ہے۔آج جب ہمارے وزیراعظم خود کش حملوں پر یہ کہتے ہیں کہ یہ قائد کے ترقی پسند ،لبرل اور پروگریسو پاکستان پر حملہ ہے یا ہمارے وزیراعلیٰ پنجاب یہ کہہ رہے ہیں کہ دہشت گرد دھرتی کا ناسور ہیں اور ہمیں ان کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کرتے ہوئے اگر رینجرز کی مدد لینی پڑی تو وہ بھی حسب ضرورت لیں گے تو ان کا یہ جذبہ قابل فہم ہے۔ رینجرز کی مدد کے حوالے سے یہاں دو آراء رہی ہیں اول یہ کہ کراچی کی طرح پنجاب میں بھی رینجرز کا سخت استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کی تمام پاکٹس کا خاتمہ کیا جائے چاہے ان کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہو یا ان علاقوں سے جہاں سہولت کاروں کو تعاون مل سکتا ہے دوم پنجاب میں رینجرز آپریشن کی ضرورت نہیں ہے ہماری ذاتی رائے بھی اگرچہ یہی رہی ہے کہ پنجاب کے حالات کراچی جیسے ہر گز نہیں ہیں اور یہاں پنجاب پولیس کی کاروائیاں دہشت گردی کے حوالے سے ناقابلِ اطمیِنا ن نہیں ہیں دوسرے کچھ لوگ جو اس حوالے سے پرجوش مطالبات کرتے ہیں در حقیقت اُن کا مطمئع نظر دہشت گردی کا خاتمہ نہیں بلکہ سیاسی مقاصد کے تحت وہ پنجاب حکومت کو کسی نہ کسی نوع کے دباؤ میں لانا چاہتے ہیں اُن کی یہ تمنا رہی ہے کہ شخصیات کی پکڑ دھکڑکے حوالے سے پنجاب میں بھی عسکری و سیاسی قوتوں میں ایک نوع کا تناؤ پیدا ہو۔
آج حالات بڑی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں مسلم لیگ کی موجودہ حکومت میں سیاسی و عسکری ہم آہنگی کم از کم جو اس وقت ہے پہلے کبھی نہ تھی ۔ وفاق کی سطح پر بھی اس کی جھلکیاں مختلف واقعات میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں وزیراعظم کا یہاں تک کہنا کہ دہشت گردی کے خلاف آرمی جہاں بہتر سمجھے اقدامات کر سکتی ہے اسی اعتماد کا مظہر ہے جب اوپر کی سطح پر اعتماد کی فضا بہتر ہوتی ہے تو اس کے اثرات لازماََ نیچے بھی جلوہ گر ہوتے ہیں یہی سبب ہے کہ پنجاب کے زیر داخلہ کھل کر یہ کہنے کی پوزیشن میں ہیں کہ پنجاب میں رینجرز کے اختیارات کراچی سے بھی زیادہ ہو نگے اس حوالے سے سمری منظور ہو چکی ہے بلکہ ہماری اطلاع کے مطابق رینجرز کا انٹیلی جنس بنیادوں پر آپریشن شروع ہو چکا ہے جسے خفیہ رکھے جانے کی تاکید کی گئی ہے۔ لہذا چائے کی پیالی میں جو لوگ طوفان اٹھانا چاہتے تھے امید ہے کہ وہ اپنے اس طرزِ فکر پر نظر ثانی فرمائیں گے بلکہ اس آپریشن کے پورے ملک میں مثبت اثرات مرتب ہونگے کیونکہ مسئلہ کراچی یا پنجاب کا نہیں ہے اگر دہشت گرد اور ان کے سہولت کار پورے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں یااپنی اگلی کاروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو اس برائی کو دبائے جانے کا اہتمام ہونا چاہیے ساتھ ہی اس سوچ کو بھی قوی ہونا چاہییے کہ ہم نے اس نخل فتنہ کی محض ٹہنیاں یا پتے کاٹنے پر اکتفا نہیں کرنا ہے جڑ کاٹنی ہے۔
ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے بہت سے لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان ہے کیا؟اس سلسلے میں حکومت اور میڈیا دونوں کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ ہمارے عام سے عام فرد تک اس متفقہ قومی دستاویز کی تفصیلات پہنچیں جہاں تک اس پر عمل درآمد کا تعلق ہے اُس پر زور محض خارجی حوالوں سے ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ داخلی حوالے سے بھی ہمیں اُن کڑوے اقدامات کو اٹھانے سے گریز نہیں کرنا چاہیے جن میں قوم کی دوررس اور حقیقی بھلائی ہے۔
آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ خودکش حملے ، دہشت گردی اور انتہا پسندی بنے ہوئے ہیں اگر ہم اس گرداب سے نکل کر دیکھیں تو ہمارے اصل ایشوز غربت اور جہالت ہیں ہم بیماریوں اور سماجی نا انصافیوں کے خلاف لڑیں ۔ سوسائٹی کے کمزور طبقات پر روارکھی جانے والی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کریں ۔ دکھی انسانوں کے دکھوں کو خوشیوں اور سکُھوں میں بدل ڈالیں ۔محرومیاں اور مایوسیاں ہمارا مقدر نہیں بلکہ ترقی و خوشحالی ہمارے ہر فرد کا حق ہے۔ جیسے افراد ہونگے ویسے ہی قوم تشکیل پائے گی کیونکہ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ ۔لیکن جب تک ہم دہشت گردی اور شدت پسندی کے جبری گرداب میں پھنسے رہیں گے ہم اپنے حقیقی ایشوز کو حل کرنے کی تگ ودو کیسے کر سکیں گے ہماری ہی نہیں پوری دنیا کی توانائیاں اور بہترین وسائل ایک اذیت ناک لا حاصل اور نادیدہ منفی جنگ کی نذر ہو رہے ہیں جس سے انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والوں کو At the end کچھ حاصل بھی نہیں سوائے تباہی و بربادی کے زیرو آؤٹ پٹ ہے۔

Mustafa Kemal Ataturk

ISTANBUL THE DREAM CITY